محبت مشن انٹرنیشنل

سید رسول شاہ خاکی

٭٭٭حالاتِ زندگی سید رسول شاہ خاکیؒ٭٭٭

صلی اللہ علیٰ حبیبہ محمِّد وٰ آلِہ وسلم

شیخِ طریقت ،رہبرِ شریعت ،قدوۃالعاشقین ،زبدۃالواصلین حضرت پیر سید رسول شاہ خاکی کا شمار بیسویں صدی عیسوی کی اُن چند نامور روحانی شخصیات میں کیا جا سکتا ہے،جن کی دعوتی تربیتی اور روحانی خدمات برصغیر کی اسلامی تاریخ کا روشن باب ہیں ,سید رسول شاہ خاکی کو بیک وقت چاروں سلاسل۔سلسلہ عالیہ قادریہ، چشتیہ،نقشبندیہ اور سہروردیہ سے بیعت اور خلافت حاصل تھی ۔اور آپ کی عملی زندگی بھی چہار سلاسل کی جامع تھی ۔

ابتدائی حالات

آپؒ حسنی اور حسینی سید ہیں

سیدی ومرشدی اعجاز ہادی سید رسول شاہ خاکی نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت پیر شاہ محمد غوث لاہوری سے مل کر سید عبدالوہاب گیلانی اور حضور غوث الثقلین، غوث الاعظم محبوب سبحانی سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے مل کر حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما سے پھر حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے جا ملتاہے ۔

اسم گرامی

سیدی و مرشدی اعجاز ہادی سید رسول شاہ خاکی کا نام نامی اسم گرامی دادا حضور رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے غلام رسول اور والد محترم رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے رسول شاہ اور والدہ محترمہ نے منور شاہ رکھا۔

ولادت باسعادت

سیدی ومرشدی اعجاز ہادی سید رسول شاہ خاکی 9 رمضان المبارک بروز پیربوقت ظہر بمقام بولاب (مقبوضہ کشمیر سری نگر) میں اس عالمِ آب وخاک میں جلوہ افروز ہوئے ۔

21 دن تک دودھ نہ پیا

سیدی و مرشدی اعجاز ہادی سید رسول شاہ خاکی نے پیدائش سے لے کر مکمل اکیس دن تک اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا جب تک عید الفطر کا چاند نظر نہیں آیا )اس طرح آپ کی پیدائش سے ہی کرامات کا ظہور شروع ہوگیا( جو اکثر اقطاب اور اغیاث میں پایا گیا ہے اور سَیرِ کی کتب میں موجود ہے ۔

فقر کی حقیقت!

کسی نے فقر سے متعلق سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے نزدیک فقر رسولِ اکرم کی طرزِ زندگی کا نام ہے۔ فقر بدن کی مفلسی ہے۔ ذہن کا غناء ہے اور دِل کی زندگی ہے۔ پس اللہ کی راہ پر چلنا ہی فقر ہے۔ دِل اللہ کی یاد میں مست الست بنائے رکھنا ایسا فقر ہے، جو تمام صوفیاء
کی اصل ا ور اساس ہے۔حضور غوث اعظم جیلانی سرکار کا ارشاد پاک ہے کہ “تم اسلام کو اس حقیقت تک پہچانو کہ ایمان تک رسائی حاصل ہو جائے۔ ایمان کی حقیقت کو پاؤ تاکہ یقین تک جاپہنچو ۔اس طرح تم وہ کچھ دیکھو گے جو تم نے پہلے نہ دیکھا تھا۔ آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے کہ فقیر کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے فقر سے اتنی ہی محبت رکھتا ہے جتنی دولت منداپنی دولت سے محبت رکھتا ہے۔

معرفت !

کسی نے پیر صاحب سے سوال کیا کہ معرفت کسے کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔’’ کسی کے لیے جل جانا، نابود ہو جانا، خود کومٹا دیناکسی کا ہوجانایا کسی کا بن جانا‘‘۔مجذوب کی صحبت سے اکثر پیر صاحب بچنے کا ارشاد فرماتے اور فرماتے کہ افضل کا م حضور نبی اکرم کی اطاعت ہے۔ صحابہ اکرام کے اعلیٰ مدارج ان کی دیوانگی کی بنا پر نہیں تھے بلکہ جنونی اطاعت و محبت کی وجہ سے تھے” آپ نے اپنی زندگی کی بات کرتے ہوئے فرمایاکہ جب مجھے شیخِ کامل کی تلاش تھی تو میں وادئی کشمیرکے قصبوں اور شہروں میں گھوما۔ یہاں تک کہ میری حالت بھی مجذوبا نہ ہو گئی۔ سرینگر سے لے کر گورداس پور تک کوئی پیر اور شیخ نہیں چھوڑا جسے میں ملانہ ہوںگا۔ بہت سے ایسے تھے کہ مریضوں کے جسم پر ہاتھ مس کرتے تو بیماریاں کا فور ہو جاتیں اور بہت سے ایسے تھے کہ مہینوں کے حساب سے کھانا نہیں کھاتے تھے لیکن غوثِ زمان جناب بابا قاسم موہڑوی نے مجھے سنبھالا اور مجھے اتباعِ نبوی کی خیرات سے نوازا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فکر نور ہے جبکہ غفلت اندھیرا ہے اور جہالت گمراہی ہے۔ فضلِ خُدا سالک کی منزل بھی ہے، راستہ بھی ہے اور علم بھی ہے۔ تقویٰ سالک کو کروڑوں سال میں وہاں نہیں پہنچا تاجہاں فضل ِخُدا لمحوں میں پہنچا دیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے سوال اس کے فضل کا ہی کرنا چاہیے۔

خواب سے متعلق ارشاد!

حضورپیر صاحب فرماتے ہیں کہ خواب کے متعلق بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ تو وہ ہیں کہ جونہ تو خواب کی تعبیرکے قائل ہیں نہ ہی سچے خوابوںکے جبکہ یہ خیال غلط ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو خوابوں ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیںخواب ہی کو مدار نجات اور مدار فضلیت سمجھتے ہیں۔ اگر کسی کے بارے میں اچھا خواب دیکھ لیا تو معتقد ہو گئے اور اگر اپنے ہی بارے اچھا خواب دیکھ لیا تو اپنے ہی معتقد ہوگئے کہ اب میں پہنچا ہوا بزرگ ہو گیا ہوں ۔ بعض اوقات بیداری کے عالم میں کچھ چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں جس کو کشف کہتے ہیں۔خوب سمجھ لیا جائے کہ انسان کی فضلیت کا اصل معیار خواب اور کشف نہیں ۔ بلکہ اصل معیار یہ ہے کہ اس کی بیداری کی زندگی سنت بنوی کے مطابق ہے کہ نہیں ۔ آخرمیں فرمایا کہ بعض لوگ خوابوں پر تنقید میں بے جا حد پھلانگ جاتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے ۔

مجذوبوں کے پاس بیٹھنے سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگ شریعت کو بے کار سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ شریعت کی وقعت اور عظمت و قدرومنزلت ایسے لوگوںکے دِلوں سے جاتی رہتی ہے۔مجذوب تو مکلف نہ ہونے کے باعث شریعت کی پیروی نہیں کرتے ۔ا ن کے پاس بیٹھنے والے بھی اس ڈگر پر چل پڑتے ہیں ۔ پاس بیٹھنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ تو عقل سے معذور ہیں ان پر تو شریعت کی گرفت نہیں اور جو صاحبِ عقل ہیں ان پر تو شریعت کی گرفت ہر حال میں ہے۔ یہ بھی ہے کہ نیم مجذوب اور مجذوب کے پاس لوگ بیٹھ کر شریعت مطہرہ پر عمل چھوڑ دیتے ہیں اورخود کو بھی شاید اُن جیسا خیال کرتے ہیں اور یہاں تک ہوتا ہے کہ شریعت کو فالتو سمجھنا شروع کر دیتے ۔بہر حال ایسے لوگ شریعت کی گرفت میں آئیں گے جبکہ مجذوب اس قید سے آزاد ہوتا ہے۔آپ فرماتے تھے کہ مجذوب کی نہ تو صحبت اختیار کی جائے اور نہ ہی اُسے برا بھلا کہا جائے۔ مجذوبوں کا مرتبہ ومقام اللہ کے نزدیک کچھ زیادہ نہیں ہوتا وہ صرف معذور ہوتے ہیں۔ مجذوب گو مقبول ہیں مگر کامل نہیں کیونکہ وہ اعمال سے محروم ہیں۔پیر صاحب کے ایک طالب نے ایک مجذوب کی ملاقات اور اس کی محبت کا ذکر کیا تو فرمایا ” مجذوب کی خدمت اگر ہو سکے تو کر دی جائے لیکن انکی توجہ کا طالب نہ ہُوا جائے۔

قلندر سے متعلق ارشاد !

حضورپیر صاحب فرماتے ہیں کہ” قلندر اس دور میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ قلندر حال کا نام ہے ،قال کا نہیں ۔ صوفیاء کے گروہ میں اُس جماعت کو قلندر کہتے ہیں جن میں اعمالِ ظاہری تو کم ہوتے ہیں مگر اعمال باطنی ان کے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اعمال باطنی یہ ہیںکہ اللہ تعالی کے ساتھ
معاملہ درست رکھا جائے۔قلب و نظر کی نگہداشت رکھی جائے۔ غیر اللہ کی طرف متوجہ نہ ہُوا جائے ۔ ہمیشہ قلب کو مشغول ذکر رکھا جائے۔ سب کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے آپ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت تفکر اور مراقبہ میں رہتا ہے۔ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اس کا دِل صاف اور سادہ ہوتا ہے۔ اس کی آرزویہ ہوتی ہے کہ خُدا سے تعلق قائم کر کے باقی سب کو ترک کر دیا جائے۔”

“آداب شیخ اور نسبتِ شیخ سے متعلق ارشاد !”

جب مرید اپنے شیخ و مرشد کی خدمت میں باادب رہے گا تو مرشد کے دل میں اس کی محبت پیدا ہو جائے گی اور جب شیخ کے دل میں اس کی
محبت آجائے گی تو مُرید فیوض و برکات کا حامل ہوجاتا ہے مرید کا اپنے شیخ کے حضور مقبول ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اللہ تعالی اور حضور نبی اکرم اور ان سب اولیاء اکرام کے حضور میں جو اس کے مرشد اور حضور کے درمیان ہیں مقبول ہو چکا ہے۔
“مقبولِ اہل دِل مقبول خُدا است”

نماز میں یکسوئی سے متعلق ارشاد!

آپ نے فرمایا”فرائض میں سب سے اہم اور مقدّم نماز ہے۔ اس کی حفاظت کی سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے ۔ اس زمانے میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو کہ خود بھی اس فریضہ سے غافل ہیں اور ان کے اہل و عیال بھی غافل ہیں۔ انہیں سو چنا چاہیے کہ سب سے پہلا سوال آخرت میں نماز کے بارے میںہوگا۔”

خاص نقطہ!

حضور خاکی شاہ سرکار فرمایا کرتے تھے کہ” بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس وجہ سے نماز نہیں پڑھتے کہ نمازمیں دِل نہیں لگتا جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں بُرے بُرے و سوسے دِل میں آنا شروع ہو جاتے ہیںاور ذہنی یکسوئی حاصل نہیں ہوتی۔ حضورِ قلب کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ ایسی نماز سے کیا فائدہ؟پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ایسے فاسد خیالات میں گرفتار لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ نماز میں دِل لگنا مقصود نہیں، دِل لگانا مقصود ہے اور دِل لگانا بھی اپنے اختیار کی حد تک۔ جب غیر اختیاری طور پر دِل ہٹ جائے تو اس پر نہ مواخذہ ہے اور نہ ہی نماز غیر مقبول ہوگی۔آپ فرماتے کہ شیطان نے لوگوں کو اس نیک راہ سے روکنے کے لیے ایسے مہمل اور لایعنی خیالات دِل میں ڈال دیے ہیںاور ہم نے انہیں معقول سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ بہر کیف نمازوں کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکر بجا لاتے رہنا چاہیے۔

مستحبات سے متعلق ارشاد!

حضور خاکی شاہ سرکار فرماتے ہیں کہ یہ لفظ”حُب ۔۔”سے نکلا ہے، جس کے معنی محبت کے ہیں ۔ لہٰذا مستحبات وہ عمل ہو گا، جس پر مسلسل عمل کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جائے گا اور محبت کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ اس لیے بندہ محب ہو جائے گا۔ گویا مستحبات پر عمل کرنے والے کواللہ تعالیٰ کی محبت اور محبوبیت دونوں حاصل ہو جائیں گی۔آپ نے فرمایا کہ مستحب کو معمولی چیز سمجھ کر چھوڑنا نہیں چاہیے۔

یر صاحب اپنی زندگی میں ہمیشہ حکمت سے بھر پور کلام کیا کرتے تھے۔ ان کاکلام اپنے اندر کئی مطالب اورکئی مفہوم لیے ہوتا۔ اُس کلام کی کئی جہتیںہوتیںاور ہر جہت میں عجیب سبق آموز، روح پرور ،دِل کو بھانے والے اثرات موجود ہوتے۔ کلام ایک سے ہوتاسمجھایا اس میں سب کو جاتا۔ سب یہ محسوس کرتے تھے کہ شاید ہمارے متعلق بیان ہورہا ہے۔ اکثر آنے والوں کو جب درس دیتے تو اس کے تمام حالات ظاہر کر دیتے جو کہ وہ دِل میں رکھتا تھا۔ اس طرح اسے تمام سوالات کا جواب بغیر سوال کیے مل جاتا تھا۔ یہ بھی پیر صاحبکا تصرف تھا۔ مرید کو انتہائی محبت کے ساتھ، پیار کے ساتھ، تمام تر توجہ کے ساتھ۔ انتہائی قریب بیٹھا کراُسے سمجھاتے تھے، درس دیتے تھے، توجہ فرماتے تھے اور یہ عمل باربار فرماتے تھے تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے۔
ایک اور اہم اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر مریدیہی کہتا ہے کہ جو بات مجھ سے تھی وہ کسی اور سے نہ تھی۔ یہ بھی ان کے روحانی تصرف، روحانی قوت اور نظر کا کمال تھا۔ دراصل یہ اہل اللہ کا کمال ہے اور فقیر کی نشانی ہے۔ اکثر بات کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ “میاں اپنی نہ پڑھا کرو۔” اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی مردِ کا مل کا بیعت ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کی حالت ایک ذبح شدہ جانور کی سی ہو جاتی ہے۔ اب ذبح کرنے والا جس طرح اس کو کاٹے یا جو چاہے سو کرے۔ ذبح شدہ جانور کی اپنی کوئی مرضی، حیثیت اور رائے ہر گز نہیں ہوتی۔ یہی حال مریدکا ہوتا ہے۔ “المرید لایُرید”یعنی مریدوہ ہوتا ہے جس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ جب کوئی بیعت ہو جائے، مرید ہو جائے، طالب ہو جائے، اپنے شیخ کے سا تھ منسلک ہو جائے تو پھر اسے اپنی رضا ترک کرنی پڑتی ہے اور رضائے شیخ پر نثار ہونا پڑتا ہے۔ اسی بابت میں وہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ “میاں اپنی نہ پڑھا کرو”۔اسی طرح پیر صاحب فرماتے کہ اچھی اولاد اپنے والدین کا نام روشن کرتی ہے اور بری اولاد اپنے والدین کا نام اور کام تباہ کرتی ہے۔مقصد یہ تھا کہ اپنے آپ کو سنبھال کر رکھنا چاہیے ہر برائی سے بچنا چاہیے۔ تاکہ آدمی اپنے والدین کی وراثت کو سنبھا ل سکے اور ہر طرح سے سرخرو ہو سکے۔

حضور سید رسول شاہ خاکی سرکار نے مریدین ،طالبین اور سالکین کو مقصدِ زیارت سے اگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جس طالب و سالک کا قدم حق کی جستجو و تلاش میں اٹھتا ہے اس کی گردبھی عرشیوں کے لیے سرمئہ عقیدت بن جاتی ہے۔ جو سالک و مرید خدا اور رسو ل کا مقرب و محب بننے کے لیے بزرگوں کے پاس جاتاہے اس کی راہیں ہوا پر ہوتی ہیں ۔اس کی منزلیں سمٹ کرخود اس کے قدموں میں آجاتی ہیں.
پھر اکثر فرماتے تھے کہ ہر کسی کے لیے اس کا مرشد کافی ہوتا ہے۔ یعنی جس جگہ وہ بیعت ہو گیاوہ اس کا مرشد ہے وہی اس کے معاملات میں کافی ہوتا ہے۔ یہ بات آپ باربار دھراتے اور بہت سخت تنبہیہ فرمایا کرتے تھے ۔ مزید فرماتے تھے کہ جس طرح وراثت میں اولاد کو اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ ملتا ہے، اس طرح مریدین کو حصہ اپنے مرشد سے ہی ملتا ہے یہ اور کہیں سے ممکن نہیں ۔ تصورِ شیخ اور فنا فی الشیخ کا درس دیتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہرولی اللہ نے یہی کہا ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کا مرشد ہی کافی ہوتا ہے۔ پھر صحبت کے متعلق فرماتے تھے کہ صحبتِ شیخ از حد ضروری ہے اول تو روز شرفِ زیارت و صحبت حاصل کی جائے اگر روز ممکن نہ ہو تو ہفتہ میں ایک بار، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ماہ میں ایک بار اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک بار شرف صحبت وزیارت لازمی ہے۔ ورنہ اس کے ایمان کو خطرہ ہے وہ شیطان کے جال میں پھنس جائے گا اور اپنی آخرت اورروحا نی منزل کو تباہ کر بیٹھے گا۔ اس لیے ان احکامات پر عمل کرنا اشد ضروری ہے

احمد رضا خان بریلوی سےملاقات!

پیر صاحب فرماتے ہیں میں ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا اور احمد رضا خان بریلوی سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنی روحانی نگاہ سے مجھے پہچان لیا اور آپ نے مجھے فورا سٹیج پر بلوا لیا۔ مجھے خوب پیارکیا میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔پیر صاحب فرماتے ہیں آپ (احمد رضا خان بریلوی)کا چہرہ انتہائی خوبصورت سفید ریش مبارک اور سر پر دستار مبارک ہوتی تھی۔

 

جب بھی ان کی خدمت میں کوئی مسلہ لایا جاتا تو پہلے اسے قرآن سے پھر احادیث سے پھر آثارِ صلحا سے اسے ثابت فرماتے پھر فرماتے فقیر کے خیال میں یہ زیادہ احسن ہے۔ چونکہ آپؒ حسنی حسینی سید ہیں اور حضور غوث الاعظمؓ کی اولاد سے بھی ہیں اسی لئے سلسلہ طریقت میں اکتسابِ فیض اور رہنمائی کا مرکز بھی وہی رہے۔

30 اکتوبر 1994 میں آپؒ نے اس دارفنا سے داربقا کی طرف کوچ کیا۔ آپؒ کے وصال کے بعد آپؒ کی وصیت کے مطابق آپ کے فرزند ارجمند قلندر سید محمود الحسن شاہ خاکی(مخدوم محمود مستوار قلندر) مسند نشین ہوئے۔